طالبان اور ہاسٹل کا کرایہ
طالبان اور ہاسٹل کا کرایہ
﷽
میرا ایک کزن افغانستان میں پڑھتا ہے۔ تو ایک دن اسکے ابو سے ملاقات ہوئی۔ کہ بیٹا کدھر ہے آج کل۔ پڑھائی کیسی جارہی ہے۔ پتہ تو خیر مجھے پہلے سے ہی تھا۔لیکن میں پوچھا
اس لیے۔ کہ ان دنوں حالات کافی خراب تھے۔ لیکن اس نے بتایا کہ کابل میں ہے اور ڈاکٹر بن رہا ہے۔
ہماری عوام کو ڈاکٹر بنے کا بہت شوق ہے۔اگر آپ ڈاکٹر بن گئے تو ہر کتا بلا
آپ کی عزت کرے گا۔ اور اگر خداناخواستہ آپ ایک عام پڑھے لکھے اچھے انسان بن گئے۔ تو پھرمقدر ذلالت کہ سوا کچھ نہیں ہے آپ کے لیے۔۔۔تو اس ملک میں ایک اچھا
انسان بنا نا ایک جرم ہے۔ وہ الگ بات ہے۔ آپ امیر کبیر ہو۔ یا لوگ آپ سے ڈرتے ہوں۔ تو میں یہ بات کررہا تھا۔
کہ کزن کے ابونے بتایا کہ کابل کہ ایک ہاسٹل میں ان کا
بیٹا۔ اور پڑھائی بہت اچھی جارہی ہے۔ امریکہ کے جانے کہ بعد تھوڑا سا گیپ آیا پڑھا میں۔اگر گیپ نہ آیا ہوتا یہ ان کی چھٹیوں کہ دن ہے۔ لیکن طالبان نے آڈر دیا کہ چھٹیاں پہلے ہی
کرچکے ہو آپ لوگ۔ اب پڑھائی کا جو حرج ہوا ہے۔ وہ پورا کرو۔ تو اس نے بتایا کہ سارے افغانی طالبان کا بچپن اور پوری زندگی پاکستان میں گزری ہے۔
یہ یہاں پڑھے ہوئے ہیں۔
علاج کے لیے بھی یہاں آتے ہیں۔۔۔تو میرے بیٹے کہ روم میٹ سے ایک طالب ملنے آیا۔ اس کے باپ سے گپ شپ تھی۔تعلق تھا پاکستان میں رہتے ہوئے۔ تو خیر خیریت
معلوم کرنے آیا۔ تو جاتے ہوئے اس نے پوچھا کہ کوئی مسلہ تو نہیں ہے؟ تو اس نے شکایت کی کہ مالک مکان نے اس سال یہ تیسری دفعہ کرایہ بڑھایا ہے۔ اور یہ بہت ظلم ہے۔
ہم پردیسی ہیں ۔ اور یہ ظالم بار بار کرایہ بڑھا رہا ہے۔نارمل طریقہ یہ ہے کہ دو تین سال بعد آپ کرایہ بڑھاؤ۔۔۔
تو اس نے کہا ایک اپلیکیشن /درخواست لکھو اور مجھے دو۔ بلکہ مقامی
تھانے میں دو۔ پھر کیا تھا۔ کہ مالک مکان کا بلاوا آ گیا۔ مالک مکان ان سٹوڈنٹس کے پاس آیا اور بولا۔ کہ جو کرایہ تو لوگ بولوگے۔ وہ میں لوں گا۔ لیکن یہ اپنی درخواست واپس لے لو۔
اس طرح انکا مسلئہ حل ہوا۔۔ تو یہ ہوتا ہے انصاف اور سستا انصاف۔ کسی جج وکیل کی ضرورت نہیں ہے۔جج اور وکیل کی فیس نارمل انسان کے بس سے باہر ہے۔۔
تو میں یہ کہہ رہا
تھا۔ کہ اگر یہاں پے کوئی سستا انصاف کا کوئی طریقہ وسیلہ بن جائے۔ صرف ایک درخواست اور میسج پہ آپکا کام ہوجائے۔ تو آپ کو اور کیا چاہیے؟اگر ہم “کورونا” کی مثال لے لیں۔
“کورونا” اور رمضان میں لوٹ مار کو دیکھ لیں۔ تو آپ کا دل ۔۔۔
“کورونا” میں سکولز اور کالجز اور ٹراسپوٹرز نے اپنی پوری فیس وصول کی۔اگر گاڑی آپکی نہیں جارہی ہے۔ تو پھر آپ کرایہ
کس چیز کا لے رہے ہو؟ ہاں ڈائیور بھی انسان ہے اور اساتذہ بھی۔ لیکن پوری فیس لینا بہت ظلم ہے۔ جن کے پاس ہو۔
انکا تو مسلئہ ہی نہیں ہے۔ جن کے پاس نہ ہو۔ ساری
مصیبت ان کی ہے۔
daily urdu column
urdu hindi column